مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم (مرس) سے سعودی عرب میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتوار کو 102 تک جا پہنچی ہے۔ حکام نے اس ہلاکت خیز وبائی مرض سے پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران دس مزید اموات کی تصدیق کی ہے۔
سعودی حکام حکام اس بیماری سے خوفزدہ عوام کا اعتماد جلد از بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں سعودی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز مغربی شہر جدہ میں مرس سے متاثرہ ایک تریسٹھ سالہ خاتون اور ایک اٹھہتر سالہ مرد کی دارالحکومت الریاض میں اموات ہوئی ہیں۔
ان کے علاوہ چھ مزیدافراد بھی اس مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے ہیں۔
تقریباً دوسال قبل سعودی عرب میں مرس کا وائرس پھیلا تھا، لیکن اب تک یہ دنیا میں اس مہلک وائرس سے متاثرہ سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جہاں 323 مریضوں میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے۔
اس سے ایک روز قبل مصر میں بھی ایک شخص میں مرس کے وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی، ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ متاثرہ شخص حال ہی میں سعودی دارالحکومت ریاض سے واپس لوٹا ہے جہاں وہ روزگار کے سلسلے میں مقیم تھا۔
جدہ کے شاہ فہد اسپتال کے ڈاکٹروں نے گزشتہ ہفتے انفیکشن کے خطرے کے پیش نظر مرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کردیا تھا۔
چنانچہ عالمی ادارہ صحت نے اپنے ماہرین سعودی عرب بھیجنے کی پیش کش کی تھی تاکہ وہ اس وائرس کی مریضوں سے معالجین کو منتقلی کے ممکنہ خطرات کی تحقیقات کرسکیں۔
right;">یاد رہے کہ مرس کو 2003ء میں ایشیا میں پھوٹنے والے سارس وائرس سے زیادہ مہلک خیال کیا جاتا ہے۔
تاہم یہ بات پھر بھی اطمینان بخش تھی کہ مرس کا وائرس سارس کے مقابلے میں ایک مریض سے دوسروں میں کم منتقل ہوتا ہے۔
یہ مہلک وائرس دوسال قبل مشرق وسطیٰ اور یورپ کے بعض ممالک میں پھیلا تھا اور اس کے نمونوں کے جینیاتی تجزیے کے بعد سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔
مرس سے سعودی عرب کے علاوہ فرانس ،جرمنی، اٹلی ،تیونس اور برطانیہ میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس وائرس کا تعلق بھی ایک عشرے قبل پھیلنے والے سارس وائرس کے خاندان سے ہے۔
برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے متعدد مرتبہ انسانوں میں منتقل ہوا ہے مگر یہ وبائی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
لیکن اس تجزیے سے سائنسدانوں کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ مہلک وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں کس طرح منتقل ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کے مختلف گروپ اس وائرس کے بکریوں ،بھیڑوں ،کتوں ،بلیوں ،اونٹوں اور دوسرے جانوروں میں پائے جانے کے حوالے سے بھی تحقیقات کررہے ہیں۔
مرس یا این کوو یا ناول کورنا وائرس (این کوو) وائرسوں کے اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے جن کے نتیجے میں متاثرہ شخص کو شدید سردی لگتی ہے۔
اسی قسم کا سارس (سویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سینڈروم ) وائرس سب سے پہلے 2003ء میں ایشیا بھر میں پھیلا تھا اور اس سے سے دنیا بھر میں آٹھ ہزار افراد متاثر ہوئے تھے۔ان میں دس فی صد یعنی آٹھ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔